آج ایک عجیب سی خاموشی میرے اندر بسی رہی. ایسی خاموشی جو بولتی نہیں، مگر سب کچھ کہہ دیتی ہے۔
زندگی جیسے آج مجھے روک کر کہہ رہی تھی: “بس ذرا ٹھہرو… سانس لو… اور دیکھو، تم کتنے فاصلے طے کر چکے ہو۔”
اور میں، جو ہمیشہ آگے دوڑتا رہا، آج پہلی بار خود کو سن رہا تھا۔
جب انسان بہت کچھ سہہ لیتا ہے، تو ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ سوالوں سے نہیں، خاموش تسلیمات سے بات کرتا ہے۔
میں بھی اب سوال کم، مشاہدہ زیادہ کر رہا ہوں۔ اپنی سوچوں کی گہرائی میں جھانکتا ہوں تو دکھ، محبت، خواب، خوف… سب کسی پرانی کتاب کے بابوں کی طرح لگتے ہیں — جو پڑھے بھی گئے ہیں، اور پھر بھی نامکمل ہیں۔
کبھی لگتا ہے جیسے میں خود سے بچھڑ گیا ہوں… مگر پھر یاد آتا ہے:
خود کو کھو دینا ہی تو پہلا قدم ہے اصل خودی کو پانے کا۔
جہاں تکلیف ہے، وہیں روشنی بھی ہے۔
جہاں زخم ہیں، وہیں سے نئی کھال اُگتی ہے۔
اور جہاں تھکن ہے، وہیں ایک نئی توانائی چھپی ہے. جو صرف تب نکلتی ہے، جب ہم تھک کر بھی آگے بڑھنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
آج یہ بات دل پر نقش ہو گئی ہے کہ طاقت صرف جسمانی نہیں ہوتی. اصل طاقت یہ ہے کہ جب سب کچھ بکھرا ہو، تب بھی آپ اپنی سوچ کو سنبھال کر رکھ سکیں۔
یہی وہ لمحہ ہے جب انسان عام سے خاص بنتا ہے. خاموشی میں بیٹھا، اپنے ہی باطن سے آنکھیں ملا کر، کہتا ہے”میں اب تیار ہوں… اگلے باب کے لیے۔
آخری خیال
“جب تمہاری روح خاموش ہو جائے، تب سمجھنا کہ وہ تمہیں کچھ خاص سکھانا چاہتی ہے۔”
میں سن رہا ہوں… اور اب، آگے بڑھنے کے لیے تیار ہوں۔